Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

صباحت لاکر میں سے تمام جیولری بکس نکالے بیٹھی تھیں جو خالی تھے اور خالی ڈبے دیکھ کر ان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ ان میں ہزاروں کے نہیں لاکھوں روپے مالیت کے زیورات تھے جو عائزہ کی وجہ سے مٹی میں مل گئے اور عائزہ کو رتی برابر دکھ یا شرمندگی نہ تھی۔

عادلہ کمرے میں آئی اور صباحت کو جیولری بکس کھولے بیٹھے دیکھ کر وہ مسکرا کر ان کے قریب بیٹھ کر گویا روئی تھی۔

”ممی! ہر دوسرے دن جیولری بکسز کو کھول کر بیٹھ جاتی ہو  کیا اس طرح دوبارہ کہیں سے ان میں جیولری آ جائے گی؟“

”میرا دل مت جلاؤ بلاوجہ کی باتیں کرکے۔ عجیب لڑکیاں ہو تم  ایک تو لاکھوں روپے کے زیورات آگ لگا کر بھی شرمندہ نہیں ہے اور دوسری تم ہو جو باتوں کو سمجھنے کے بجائے اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی ہو۔
(جاری ہے)

“ صباحت کے لہجے میں بے حد دکھ اور صدمے کی کیفیت تھی۔

”کیا کروں؟ مجھے بتائیں تو سہی مما!“ وہ جھینپ کر گویا ہوئی۔

”مجھے تو یہ سوچ سوچ کر ہول اٹھنے لگتی ہیں اگر کسی دن اماں نے کسی زیور کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گی میں ان کو؟ اس میں میرے ہی نہیں تمہارے باپ کی پہلی بیوی کے بھی دو سیٹ اور 12 طلائی چوڑیاں اور کڑوں کا سیٹ تھا۔ جو وہ لے کر نہیں گئی تھی۔“

”مما جب دادی نے اتنا عرصہ وہ سیٹ اور چوڑیاں نہیں مانگیں تو اب کیوں مانگیں گی؟ کیا ان کو خواب میں بشارت ہو گی؟“

”ہو بھی سکتی ہے اماں کو تم نہیں جانتی  میں جانتی ہوں۔
جس چیز کو ان سے چھپانے کی کوشش کی جائے وہ ضرور ان کو معلوم ہو کر رہتی ہے اور اگر ان کو حقیقت معلوم ہو گئی تو پھر میری خیر نہیں۔ عائزہ کا تو جو حال ہوگا ہوگا مگر میں بھی پھر اس گھر سے دھکے دے کر نکالی جاؤں گی ہمیشہ کیلئے۔“ وہ شدید ترین اعصابی و ذہنی دباؤ کا شکار تھیں ان دنوں۔

”کچھ نہیں ہوگا! آپ خواہ مخواہ ڈر رہی ہیں۔ دادی جان کے پاس اپنے بھی کئی زیورات کے سیٹ ہیں  وہ آپ کے زیورات کو یاد بھی نہیں رکھتی ہوں گی۔
“ عادلہ کو ماں کی اتری ہوئی صورت دیکھ کر ترس آ گیا تھا۔

”اماں کے پاس اب برائے نام ہی زیور ہوں گے  طغرل اور بھابی کے آنے سے قبل جو بھابی کیلئے کمرہ سیٹ کروایا تھا اور دوسری ضروریات کیلئے انہوں نے وقتاً فوقتاً میرے ہاتھ میں زیورات فروخت کروائے ہیں فیاض سے چھپ کر۔“

”آنٹی تو مری جا کر گویا ”مر“ ہی گئی ہیں وہ تو واپسی کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں خوامخواہ دادی نے ان کیلئے اپنے زیور برباد کئے۔

”ارے میکے میں جا کر سسرال کی یاد کہاں آتی ہے  یہ بات تم اپنے سسرال جا کر سمجھو گی عادلہ۔“ وہ بڑے افسردگی سے جیولری بکس لاکر میں رکھتے ہوئے اس مخاطب تھیں۔

”سسرال اگر من پسند ہو تب بھی میکہ اتنا عزیز ہوتا ہے مما؟“

”سسرال صرف سسرال ہوتا ہے۔“ وہ لاکر سے چابی نکالتی ہوئی گویا ہوئیں۔

”یہ بات عائزہ کو سمجھائیں ناں  وہ منگنی کرانے کے بعد اور اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی شرمندہ نہیں ہے۔
میں کہتی ہوں آپ ڈیڈی کو سب بتا دیں آپ کے اس طرح چھپانے سے وہ نڈر ہو رہی ہے۔“

”بے وقوفی کی باتیں مت کرو  جانتی ہو تمہارے ڈیڈی کو بتانا ایک قیامت کو بلانے کے مترادف ہے۔ وہ خود سنبھل جائے گی۔“

###

ساحر خان کو ریسٹورنٹ آنے میں دیر نہیں لگی اور اس کے آتے ہی اعوان نے پورا مسئلہ اس کے سامنے رکھ دیا تھا۔

”یہ کوئی ناممکن میٹر تو نہیں ہے یار! لیکن تم بہت لیٹ ہو گئے ہو۔
“ اس نے اطمینان سے سوپ بھر کر چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”کیا مطلب؟ کیوں لیٹ ہو گیا ہوں میں؟“

”کل صبح تمہاری فلائٹ ہے اور چند گھنٹے میں تمہارے پاس  ان چند گھنٹوں میں تمہیں صرف جانے کی تیاری کرنی ہے۔ اس مختصر عرصے میں تم کس طرح کورٹ میرج کر سکتے ہو؟ کورٹ میرج کے بعد رخ اپنے گھر نہیں جانا چاہتی ہیں  تم ان کو کہاں سیٹل کرکے جاؤ گے؟“ وہ باریک بینی سے اس کو سمجھا رہا تھا۔

”تم سوچ سکتے ہو رخ کی کورٹ میرج کرنا اور پھر گھر چھوڑ دینا  کئی پریشانیاں کھڑی ہو جائیں گی  یہ تنہا کس کس سے فائٹ کریں گی؟“

”آپ میری فکر مت کریں  میں سب سے فائٹ کر سکتی ہوں۔“ رخ اعوان کو کورٹ میرج پر راضی دیکھ کر کھل اٹھی  کس قدر مشکلوں سے وہ راضی ہوا تھا اور اب ساحر راہ کی رکاوٹ بن رہا تھا۔

”رخ! ساحر ٹھیک کہہ رہا ہے  تمہارے ڈیڈی بھی اثر و رسوخ والے آدمی ہیں اور ایسے لوگ ناممکن کر دکھاتے ہیں۔
“ اعوان جذبات کے ساتھ ساتھ دماغ سے بھی کام لیتا تھا  ساحر کی بات سے اس نے بھی اتفاق کیا تھا۔

”اور میں بھی اسی ماہ کے آخر میں انگلینڈ چلا جاؤں گا۔“

”تم تو بس ادھر ادھر اڑتے رہا کرو  کوئی فکر و فاقہ تمہیں ہے نہیں۔“

”ولی عہد ہیں ہم اپنے ابا حضور کے  ہمیں کیا فکر ہو گی بھلا؟“ وہ شاہانہ انداز میں گویا ہوا تھا۔

”یہ بات تو ہے تمہیں ہمیشہ میں نے عیش کرتے دیکھا ہے۔

”تھینک گاڈ! تم نے عیش بولا ہے ”عیاشیاں“ نہیں  میں تو ڈر گیا تھا۔ خاصا شریف بندہ ہوں۔“ وہ برجستہ بولا اور پھر دونوں ہی ہنس پڑے تھے۔ رخ جو دل ہی دل میں مضطرب تھی ایک دم جل کر کھڑی ہو گئی تھی۔

”ارے… کہاں جا رہی ہو؟“ اعوان نے پوچھا۔

“جہنم میں…!“

”اوہ سوری کیا ہو گیا ہے یار!“ وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔

”میں چلتا ہوں رات کو تمہارے پاس آؤں گا۔
“ اس کا موڈ دیکھ کر ساحر نے ان کے درمیان سے جانا بہتر سمجھا تھا۔

”اوکے سی یو نائٹ!“ اعوان نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اور وہ چلا گیا تو وہ پوری طرح سے رخ کی طرف متوجہ ہو گیا جو ابھی ابھی بری طرح موڈ آف کئے بیٹھی تھی۔

”مجھ پر اعتبار کرو  میں بھرپور کوشش کروں گا جلد سے جلد اپنا کام ختم کرکے یہاں آ جاؤں گا اور پھر ہم کورٹ میرج کر لیں گے  مجھے کسی کی بھی پروا نہ ہو گی اپنے ڈیڈی کی اور نہ تمہارے ڈیڈی کی۔

”میرا دل کہہ رہا ہے اعوان! ہم آج نہ ملے تو پھر کبھی نہ مل سکیں گے۔“ اس کے بھیگے لہجے میں سچائی کانپ رہی تھی۔

”دل تو بے وقوف ہے  مت آیا کرو اس کی باتوں میں۔ یہ صرف بے وقوف بناتا ہے اور کچھ نہیں کرتا  میں ضرور واپس آؤں گا تمہارے لئے۔“ اس نے اس کو تسلی دیتے ہوئے سمجھایا تھا۔

”میں ساحر کو وہاں کا فون نمبر دے دوں گا  تم چاہو مجھ سے بات کرنا پھر ساحر تمہارا خیال رکھے گا میں اس کو کہہ دوں گا۔

###

”اماں! طبیعت ٹھیک ہے آپ کی  طغرل نے بتایا مجھے کچھ بے چینی محسوس کر رہی ہیں آپ۔“ وہ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد کمرے میں آکر لیٹ گئی تھیں  تب ہی فیاض وہاں آ گئے تھے۔

”ٹھیک ہوں بیٹا میں  ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“

”میں نے ڈاکٹر سے وقت لے لیا ہے کل شام تیار رہئے گا آپ۔“

”ارے میں ٹھیک ہوں بیٹا! طغرل کا مجھ پر بس نہ چلا تو اس نے تمہیں بھیج دیا میں ہٹی کٹی ہوں  خوامخواہ ڈاکٹر کے پاس جا کے ہزاروں روپے پھونکنے پڑیں گے  اس موئے ڈاکٹر کا کیا بگڑے گا۔

”اماں! آپ کی صحت سے بڑھ کر میرے لئے روپیہ نہیں ہے  میں آپ کو تندرست و توانا دیکھنا چاہتا ہوں۔“

”ابھی بھی مجھ جیسی ماں سے تم اس قدر محبت کرتے ہو فیاض!“ وہ فیاض کی طرف دیکھتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ جن کے چہرے پر چھائی سنجیدگی و متانت میں اس کی شوخی و کھلنڈرا پن چھپ کر رہ گیا تھا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا یہ اپنی ہی دنیا میں گم رہنے والا شخص کسی زمانے میں خاموش بیٹھنا ہی نہیں جانتا تھا۔

”آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں اماں؟ ماں صرف ماں ہوتی ہے مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے آپ سے جو ہوا وہ میرے نصیب میں لکھا تھا۔“ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔

”یہ تمہاری سعادت مندی ہے فیاض! جو تم ایسا سوچتے ہو مگر مجھے اب… جب عمر کی سیڑھیاں چڑھتی اوپر جا رہی ہوں  احساس ہو رہا ہے کچھ غلط مجھ سے بھی ہوا ہے صباحت کو بہو بنا کر لانے کی ضد میں  میں بیٹے کی محبت فراموش کر چکی تھی۔

”اماں جان! اب ان باتوں میں کیا رکھا ہے؟ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔“

”غلط فیصلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس دلاتے ہوئے گزرتے ہیں۔ غلط فیصلوں کا ادراک فوری نہیں ہوتا ہے۔“ ان کی پشیمانی زخموں پر سے کھرنڈ نوچنے کی مانند تھی اور وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

”میں کل آفس سے جلدی آجاؤں گا  آپ تیار رہئے گا اماں  شب بخیر!“ وہ وہاں سے تیزی سے نکل کر اپنے بیڈ روم میں آ گئے تھے جہاں صباحت ٹی وی پر انڈین مووی دیکھنے میں مگن تھیں۔

”ان فضولیات میں وقت گزارنے سے بہتر ہے کچھ ٹائم اماں کو بھی دے دیا کرو۔ تمہیں خیال کیوں نہیں آتا ہے ان کی تنہائی کا؟“ انہوں نے موڈ کے ساتھ ریموٹ سے ٹی وی آف کر دیا تھا۔

”واہ بھئی! ایک آپ جلدی آتے نہیں ہیں آفس سے اور کبھی آ بھی جائیں تو آپ کے دماغ ہی نہیں ملتے کسی نہ کسی بات پر غصہ آتا رہتا ہے آپ کو  کبھی جلدی آ کر یہ نہیں کہتے کہ چلو آج آؤٹنگ پر چلتے ہیں یا بھائی بھابی کی طرف ہی ایک چکر لگا لیں۔
“ صباحت کو ان کے یہ بگڑے تیور کبھی بھاتے ہی نہیں تھے۔

”کیوں؟ ایسا کیا ہے وہاں جو ان کی طرف چکر لگائے جائیں؟“ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے طنزاً گویا ہوئے۔

”اب وہ صرف میرے بھائی بھابی نہیں ہیں  آپ کی بیٹی کے ساس اور سسر بھی ہیں۔ بیٹی دے رہے ہیں وہاں کی خبر گبری تو رکھنی پڑے گی۔“

”اچھا… بڑی پلاننگ کے ساتھ تم نے یہ رشتہ کیا ہے صباحت بیگم! اب مان نہ مان  میں تیرا مہمان والی کہاوت چلے گی اس گھر میں۔

”ہونہہ! آپ تو جیسے بیٹی کی وجہ سے بالکل ہی باندھ دیئے جائیں گے۔“

”کس میں ہمت ہے ہمیں باندھنے کی کسی خیال میں مت رہنا صباحت بیگم! بیٹی دے رہے ہیں ہم تمہارے بھائی کے ہاں کوئی ناک نہیں کٹوا رہے ہیں  جو کچھ کہیں گے نہیں۔“ وہ کہہ کر واش روم کی طرف بڑھ گئے۔

”بڑے ناک والے بنے پھرتے ہیں۔ ناک تو آپ کی بہت پہلے کٹ گئی ہوتی اگر اللہ کو رحم نہ آ گیا ہوتا تو۔
“ وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے نکل گئی تھیں۔

”ممی! یہ خود سے باتیں کرنے کی عادت کب سے ہو گئی ہے ٓپ کو؟“ وہ کچن کی طرف فیاض صاحب کیلئے دودھ لینے جا رہی تھیں۔ جب ہی عائزہ ان کو لاؤنج میں مل گئی۔

”خود سے باتیں کروں گی؟ تمہارے ڈیڈی ہی دماغ گھما دیتے ہیں۔“

”جب ہی تو کہتی ہوں ممی! شادی اس شخص سے کرنی چاہئے جو ہم مزاج ہو  محبت کرتا ہو  سمجھتا ہو ہمیں  ہماری فیلنگز کو۔
ہم بہنوں نے کبھی بھی آپ اور ڈیڈی کو آئیڈیل میاں بیوی کی طرح  ایک دوسرے سے محبت کرتے نہیں دیکھا  جب دیکھا لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے سے ناراض ہی دیکھا ہے۔“ عائزہ کی بات بالکل سچ تھی وہ گڑبڑا کر رہ گئی تھیں۔

”ابھی بھی وقت ہے ممی! سوچ لیں میں راحیل کے ساتھ خوش رہ سکتی ہوں  فاخر کے ساتھ میری زندگی بھی اس طرح انگاروں پر لوٹتے ہوئے گزرے گی۔
جس طرح آپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔“ انہوں نے تیزی سے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

”اللہ نہ کرے تم میرے جیسی زندگی گزارو عائزہ!“

”اگر مجھے راحیل نہ ملا تو میں فاخر کو سب بتا دوں گی آپ راحیل کو مجھ سے دور کریں اور میں فاخر کی دلہن بنوں گی سمجھ رہی ہیں آپ؟ میں محبت کرتی ہوں اس سے۔“

”چپ کرو!“ صباحت نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا۔

”تم نے تو شرم و حیاء کی تمام حدیں ہی توڑ کر رکھ دی ہیں۔ لاکھوں روپے کا زیور تم بیگ میں بھر کر اسے دے آئی ہو  میں پھر بھی چپ ہوں کہ چلو عزت بچ گئی جو زیورات سے کہیں زیادہ قیمتی تھی مگر تم ہو کہ شرم سے ڈوب مرنے کے بجائے پھر بھی اس بے غیرت کا نام لے رہی ہو۔“ لاؤنج کی طرف آتا ہوا طغرل عائزہ کی ہٹ دھرمی سن کر باہر ہی رک گیا تھا۔ جب کہ وہ تھپڑ کھا کر بھی چپ نہ ہوئی تھی۔

”آپ مجھے چپ نہیں کرا سکتی ہیں ممی! میں راحیل کو بھول جاؤں یہ ناممکن ہے اور آپ جیولری کی جو بات کر رہی ہیں وہ اس نے بیگ کھول کر بھی نہیں دیکھا ہے ایسا ہی رکھا ہوا ہے وہ۔“

”اس کا مطلب ہے تمہارا اس سے ابھی بھی رابطہ ہے۔“ صباحت کی رنگت زرد پڑ گئی تھی۔

”ہاں  بات کرتی ہوں میں اس سے  وہ تو کہہ رہا ہے اپنی جیولری آ کر لے جاؤ  میرے کس کام کی ہے۔

”اچھا  اتنا ایماندار ہے تو میں جاؤں گی اس سے لینے کیلئے۔“

”وہ آپ کو نہیں مجھے ہی دے گا  آپ مجھے جانے دیں۔“

”یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔“

”کیوں؟ میں لے آؤں گی وہ جیولری کا بیگ۔“

”ایسی جیولری پر میں ہزار بار تھوکتی ہوں  جو عصمت کے بدلے میں ملے اور تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس سے بات کرنے کی۔“

طغرل دبے قدموں سے وہاں سے پلٹ آیا اندر ان کو خبر تک نہ ہوئی تھی۔

”عائزہ کے سر سے یہ گھٹیا محبت کا بھوت آسانی سے اترنے والا نہیں ہے  عجیب بے حس لڑکی ہے۔ ذرا بھی گلٹی فیل نہیں کر رہی  فیاض انکل جیسے نائس بندے کی کیسی بے راہ روی کی راہ پر چلتی بیٹیاں ہیں یہ…؟ عادلہ اپنی بے ہودہ محبت کا خراج دینے میرے بیڈ روم میں چلی آئی تھی۔ میری نیت میں کھوٹ ہوتا یا رشتوں کی پاسداری مجھے کرنی نہیں آتی تو عادلہ تو پہلے ہی خواہشوں کو بے لگام چھوڑے ہوئے تھی پھر احترام  اعتبار و اعتماد کا ہر رشتہ ٹوٹ جانا تھا۔
“ وہ اپنے بیڈ روم میں آ کر بے کلی سا بیڈ پر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا۔

”یہیں تربیت کام آتی ہے اگر آنٹی نے وقت سے پہلے ہی ان کو ایسی باتوں سے روکا ہوتا  سمجھایا ہوتا تو آج خود بھی پچھتا نہیں رہی ہوتیں۔“

”پری بھی تو اسی گھر میں  اسی ماحول میں رہ کر پلی بڑھی ہے پھر اس کو کیوں اس قدر اپنے تقدس کا خیال رہتا ہے؟ شاید دو مختلف ماؤں کی نیچر اس میں شامل ہے یا دادی جان جیسی عبادت گزار اور قدم قدم پرنصیحتیں کرنے کی عادت نے اس کو ازحد محتاط بنا دیا ہے وہ اس حد تک اس معاملے میں حساس ہو گئی ہے کہ اپنی طرف اٹھنے والی کسی غیر ارادی نگاہ بھی برداشت نہیں کر سکتی ہے۔
“ وہ بے دھیانی میں پری کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔

”اوہ! میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں…؟“ اس نے خود کو سرزنش کی اور کافی دیر سوچنے کے بعد معید کو کال کی وہ پہلے بھی اس سے یہ معاملہ ڈسکس کر چکا تھا۔

”یس… خیریت تو ہے؟“ اس ٹائم کال کرتے تو نہیں ہو تم؟“ دوسری طرف وہ پریشان ہو گیا تھا اور طغرل نے عائزہ کی طرف ہونے والی گفتگو اس کو سنا دی تھی۔

”سمجھ نہیں آتا عائزہ کو ہو کیا گیا ہے ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے اسے؟“ معید بھی سخت اشتعال میں آ گیا تھا۔

”تمہیں راحیل کی ریذیڈنسی معلوم ہے؟“

”ہاں! معلوم ہے تم کیا کرنا چاہتے ہو؟“

”اس کو بتانا چاہتاہوں شریف خاندان کی لڑکیوں کو بہکانے کا انجام کیا ہوتا ہے  تم اسی ٹائم آ جاؤ۔“ طغرل کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔

   2
0 Comments